ٹوٹے ہوئے دیے کو سنسان شب میں رکھا Posted on October 10, 2014October 10, 2014 by zulfijamil ٹوٹے ہوئے دیے کو سنسان شب میں رکھا اُس پر مری زُباں کو حدِّ ادب میں رکھا کس نے سکھایا سائل کو بھوک کا ترانہ پھر کس نے لاکے کاسہ دستِ طلب میں رکھا مفلس کی چھت کے نیچے کمھلا گئے ہیں بچّے پھولوں کو لا کے کس نے چشمِ غضب میں رکھا پروردگار نے تو تقویٰ کی بات کی تھی تم نے فضیلتوں کو نام و نسب میں رکھا دراصل تم سے مل کر میں خود سے مل سکوں گا بس ایک ہی سبب ہے دار السبب میں رکھا بس دل کی انجمن ہے ، یادوں کے نسترن ہیں اب اور کیا ہے باقی ، اس جاں بہ لب میں رکھا احمدؔ میں بات دل کی کہتا تو کس سے کہتا نغمہ سکوت کا تھا شور و شغب میں رکھا Share this:FacebookXLike Loading... Related
good